the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز
etemaad live tv watch now

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ دیویندر فڑنویس مہاراشٹر کے اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے
(ایجنسیز)
فکر و نظر: شمس تبریز قاسمی
ایڈیٹر بصیرت آن لائن انگریزی
افریقی ملک نائیجیریا ان دنوں چرچے میں ہے ۔وہاں کے اسلام پسندوں کی تنظیم ’’بوکوحرام ،،مغربی میڈیا کے نشانے پر ہے۔اس تنظیم پر ان اسلام دشمن عناصر کا یہ الزام ہے کہ یہ دہشت گر د ہیں۔معصوم بچوں کا قتل کرتے ہیں ۔انسانیت کے خلاف حرکتیں کرتے ہیں ۔لڑکیوں کا اغواکرتے ہیں۔مغربی تہذیب و ثقافت ۔تعلیم و تمدن اور دیگر چیزوں سے انہیں شدید نفرت ہے ۔مغربی کلچر کوماننے والے ان کے نشانے پر ہوتے ہیں۔حالیہ دنوں میں اس تنظیم کے زیر بحث ہونے کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ ۱۴؍ اپریل کو اس تنظیم کے رہنماوں نے شمالی صوبے بورنو کے قصبے چیبوک کے گورنمنٹ سیکنڈری گرلزا سکول کے ہاسٹل پرحملہ کرکے بارہ تا پندرہ برس کی ۲۵۳؍ لڑکیوں کا اغوا کرلیا ہے ۔ جس میں سے ۵۰؍ لڑکیاں بھاگنے میں کامیاب ہوگئیں ہیں ۔انہیں لڑکیوں کے مطابق ۲؍ سانپ کاٹنے کی وجہ سے مرگئی ہے اور بقیہ اب تک ان کی قید میں ہیں جنہیں وہ بیچ بھی سکتے ہیں اور باندیاں بھی بنا سکتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد عالمی برادری کا رویہ بوکو حرام کے تئیں انتہائی سخت ہوگیا ہے ۔ اور سونے پے سہاگہ یہ ہوگیا کہ کسی بھی مسلمان ملک کی خاتونِ اول کو اعتماد میں لیے بغیر امریکہ کی خاتون اول مشیل اوباما نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ گذشتہ مہینے نائجیریا میں سینکڑوں طالبات کا اغوا ان دھمکیوں اور خطرات کا حصہ ہے جن کا سامناحصولِ علم کی کوشش کرنے والی دنیا بھر کی لڑکیوں کو ہے۔پاکستان میں طالبان کے حملے میں زخمی (نام نہاد)ہونے والی طالبہ ملالہ یوسف زئی کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملالہ اور دنیا بھر میں ان جیسی دیگر لڑکیوں کی جرأت اور امید عملی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کی بین الاقوامی سفیر ملالہ یوسف زئی نے اغوا ہونے والی طالبات کو اپنی بہن قرار دیتے ہوئے یہ کہا کہ کچھ بھی ہوجائے امید کا پرچم مت گرنے دینا۔ادھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی نائیجریا کے شمال مشرقی علاقے بورنو سے لڑکیوں کے اغوا پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی شدت پسند گروہ بوکوحرام کے خلاف مناسب اقدامات پر غور کیا جا رہا ہے۔خود نائیجریا میں بھی اس کے خلاف احتجاج جاری ہے اور حکومت پر یہ الزام ہے کہ غائب شدہ لڑکیوں تک اب تک رسائی حاصل نہ کرپانا حکومت کی سردمہری کا نتیجہ ہے۔
کیا ہے یہ بوکوحرام ؟ کیا اغراض و مقاصد ہیں اس تنظیم کے ؟کون لوگ ہیں اس کے بانی ؟کس پس منظرمیں یہ تنظیم منظر عام پر آئی ؟کیا مغربی میڈیا کا یہ کہنا صحیح ہے کہ یہ تنظیم شدت پسند ہے؟ ۔اسلامی تعلیمات کے خلاف یہ حرکتیں کرتی ہیں؟
تقریبا 19ویں صدی کی بات ہے شمالی نائیجیریا، نائیجیر اور جنوبی کیمرون پر سوٹوکو خلافت کی حکومت تھی۔1903 میں برطانیہ نے سوٹوکو خلافت کو شکست دے کر ان علاقوں پر قبضہ کرلیا اور مسلمانوں کے مذہب و شعار پر حملہ کرنا شروع کردیا ۔ طرح طرح کے مظالم ان پر ڈھانے شروع کردئے ۔مذہبی آزادی پر قدغن لگانا شروع کردیا ۔برٹش کے اس ظالمانہ رویہ کے خلاف مسلمانوں نے زیر زمیں تحریک چلانی شروع کردی ۔انگریزں کے کلچر سے اجتناب برتنے کی مہم چلائی ۔مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ یہ انگریز صرف ہمارے ملک کے دشمن نہیں بلکہ ہمارے شعار ہماری تعلیمات ،ہمارے مذہب ، ہماری کتاب اور ہماری تہذیب کے دشمن ہیں۔ لہذا ان سے نفرت کی جائے ، ان کے طرز زندگی کواپنانے سے احترازکیا جائے۔یہ تحریک زور پکڑنے لگی، خواص کے ساتھ عام مسلمانوں نے بھی مغربی تعلیم کے خلاف مہم اسی وقت سے شروع کردی ۔اکثر مسلمانوں نے اپنے بچوں کو مغربی طرز کے سرکاری ا سکولوں میں پڑھانا بند کردیا۔کچھ دنوں بعد ایک مسلم مذہبی عالم محمد یوسف نے میدوگری کے شہر میں 2002 میں بوکوحرام کی بنیاد رکھی۔ اس کا لفظی مطلب ہے ’’مغربی تعلیم حرام ہے،،۔ انھوں نے ایک مسجد بنائی جس کے احاطے میں ایک مدرسہ بھی قائم کیا۔نائیجیریا اور ہمسایہ ممالک کے بہت سے7 غریب خاندانوں نے اپنے بچوں کو اس مدرسے میں بھیجنا شروع کر دیا۔ بوکوحرام کی دلچسپی صرف تعلیم تک محدود نہیں تھی۔ ان کا سیاسی ہد ف بھی تھا ،وہ ایک اسلامی ریاست کا قیام بھی چاہتے تھے ۔ اس لئے اس مدرسے میں حکومت کے خلاف لڑنے کے لئے جہاد کی بھی ٹرینیگ دینے کاسلسلہ شروع کیا گیا ۔2009 میں بوکوحرام نے میدوگری میں پولیس ا سٹیشنوں اور سرکاری عمارتوں پر حملے کیے اور اس شہر میں ہنگامے ہونے لگے۔ بوکوحرام کے سینکڑوں حمایتی ہلاک ہوئے جبکہ ہزاروں شہری شہر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔بوکو حرام نائیجیریا کے شہری علاقوں پر بھی حملوں میں ملوث رہی ہے ۔ حکومتی فورسز نے بالآخر بوکوحرام کے مرکزی دفاتر پر قبضہ کر کے اس کے جنگجوؤں کو گرفتار کر لیا، جبکہ محمد یوسف ہلاک کر دیے گئے۔ اس موقعے پرحکومت نے بوکوحرام کے خاتمے کا بھی اعلان کر دیا۔لیکن بوکوحرام کے جنگجو جلد ہی ایک نئے سربراہ ابوبکر شیکاؤ کے جھنڈے تلے ا کٹھے ہو گئے۔ 2010 میں انھوں نے میدوگری میں ایک سرکاری جیل پر حملہ کر کے اپنے سینکڑوں ساتھیوں کو رہا کروا لیا۔ابوبکر شیکاؤ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک تنہائی پسند اور نڈرانسان ہیں اور پیچیدہ شخصیت کے مالک ہیں۔گذشتہ دنوں طالبات کے اغوا کے بعد ابوبکر شیکاؤ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بھیجی جانے والی ایک ویڈیو میں سینکڑوں طالبات کو اغوا کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ لڑکیوں کو اسکول جانا ہی نہیں چاہیے، اوراسکول بھیجنے کی بجائے ان کی شادیاں کروا دینی چاہئے ۔ بوکوحرام کا ہاؤس زبان میں مطلب ہے مغربی تعلیم ممنوع ہے ۔
بوکوحرام تنظیم کے بارے میں بی بی سی نے لکھا ہے کہ اس نے چھوٹے پیمانے پر اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا جس میں



حملے کر کے فرار ہونا شامل تھا۔ اپنے مخالفین کو سفاک انداز میں ہلاک کرنے کی زیادہ تر کارروائیوں میں موٹر سائیکل کا استعمال کیا جاتا تھا۔ان کارروائیوں میں ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر لوگ نمایاں اسلامی رہنماشامل تھے۔ جب یہ گروپ زیادہ بے خوف ہوا تو اس نے گرجا گھروں، پولیس، فوج اور نیم فوجی دستوں سمیت قانون نافذکرنے والے اداروں کے اہلکاروں پرحملے کرنا شروع کر دیے۔اس نے بڑے حملوں میں نائیجیریا کے دارالحکومت ابوجا میں اقوام متحدہ کے دفتر اور وفاقی پولیس کے مرکزی دفتر کو نشانہ بنایا۔بوکوحرام تنظیم نے شما لی نائیجیریامیں پولیس کے متعدد تھانوں اور فوجی بیرکوں پر حملے کیے اور وہاں سے ہتھیار، گاڑیاں اور وردیاں لوٹ کر لے گئے۔ لوٹی گئیں گاڑیوں اور وردیوں سے اس کے کارکنوں نے بھیس بدل کر اورزیادہ تباہی پھیلائی۔ اس کے علاوہ انھوں نے کئی بینکوں پر حملے کیے اوران میں سے بعض دن دہاڑے کیے گئے۔ کئی بینکوں سے لاکھوں نائرا(مقامی کرنسی) لوٹے جانے کی اطلاعات بھی ملیں۔ اس کے بعد فوج نے مقامی نوجوانوں کی مدد سے میدوگری کے علاقے سے بوکوحرام کی محفوظ پناہ کو ختم کر دیا۔نوجوانوں کی اس مقبول ٹیم کو اب سویلین جوائنٹ فورس کہا جاتا ہے۔بوکوحرام نے اس نقصان کے بعد مسلمانوں اور عیسائیوں سمیت عام شہریوں کونقصان پہنچانے پر توجہ مرکوز کر لی۔ اس نے کئی دیہات کو نذرِ آتش کر دیااور اس میں 15 سو کے قریب لوگ مارے گئے۔اس کے علاوہ ان حملوں میں سکولوں کو بھی نشانہ بنایا گیا لیکن ان حملوں میں صرف طلبہ کو ہلاک کیا جاتا اور طالبات کو چھوڑ دیا جاتا تھا، لیکن اب حال ہی میں بوکو حرام نے طالبات کو اغوا کرنا شروع کر دیا ہے۔ ابھی تک نائیجیریا کی حکومت ان طالبات کو تلاش نہیں کر سکی ہے۔ اس سے پہلے7 تنظیم کے رہنماؤں نے حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے ان کی خواتین کو بغیر عدالتی کارروائی کے قید کر رکھا ہے۔بوکو حرام کے جنگجو اس سال اپنی کارروائیوں میں سینکڑوں افراد کو ہلاک کر چکے ہیں۔بوکوحرام اسلام کے ایسے7 سخت گیر نظریے کی پیروی کرتا ہے جو مسلمانوں کوکسی بھی قسم کی مغربی طرز کی سیاسی یا معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے منع کرتا ہے۔ اس میں انتخابات میں حصہ لینا، ٹی شرٹیں پہننا یا سیکولرتعلیم حاصل کرنا بھی شامل ہیں۔اس طرزِ عمل کی تاریخ ایک صدی سے بھی زیادہ پرانی ہے۔
بوکو حرام کے حوالے سے یہ تمام تر نظریا ت مغربی میڈیا نے پیش کئے ہیں ۔اس تنظیم کی حقیقت کیا ہے۔مغربی میڈیا کا پر و پیگنڈہ حقیقت پر مبنی ہے یا ایک فرضی کہا نی ہے۔کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے ۔ویسے تاریخ پہ نگا ہ ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ جب بھی جہاں کہیں بھی مسلمانوں نے اسلامی نظریات پر مشتمل کوئی تنظیم قائم کی ہے،اسلامی تعلمات کوفروغ دینے کی کوشش کی ہے،قرآنی احکاما ت کو اپنی زند گی میں نافذکرنے کا منصوبہ بنایا ہے ،اسلاف و اکابرین کے نقش قدم کی اتباع کی بات کی ہے ،اسلامی تہذیب و ثقافت کو اپنایا ہے ،نئی نسل کو مغربی کلچر سے اجتناب کرنے اور دینی ہدایات پر عمل کرنے کی ہدایت دی ہے، اس عظیم راستہ کی طرف رہنمائی کی ہے تو مغربی میڈیا نے اس کی تعبیر مذہبی انتہاپسندی سے کی ہے ۔اور اس پر بغیر کسی ثبوت کے دہشت گردی کا الزام عائد کیا ہے ۔ فرضی الزاما ت لگاکر اس کو بدنام کرنے کی پوری کوشش کی ہے اور مسلمانوں نے بھی مغربی میڈیا کی اس کارستانی کو حقیقت پر محمول کیا ہے اور ان کے تئیں غلط گمان قائم کئے ہیں۔ان کی تحقیق کئے بغیر محض ان خبروں پہ اعتماد کرکے انہیں غلط ٹھہرایا ہے۔ اس لئے میں نے کوشش کی کہ کسی مذہبی اسکالر کی کوئی تحریر مل جائے تاکہ حقیقت کا پتہ چل سکے لیکن مجھے اس میں کامیا بی نہیں مل سکی ۔ اس تنظیم کے بانیوں کی زبانی اس کے حقیقی اغراض و مقاصد کا پتہ لگانے میں خالی ہاتھ رہا ۔ایک ماہ کا طویل عرصہ گذرنے جانے کے باوجود اب تک کسی مسلم ملک نے اس حوالے سے کچھ کہا ہے اور نہ ہی کسی مذہبی رہنما نے اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ آج پہلی مرتبہ سعودی عرب کے مفتی اعظم کا یہ بیان آیا ہے کہ خالص اسلامی نظریات پر مشتمل اسلامی ریاست کے قیام کا دعوی غلط ہے ، بو کو حرام کے لیڈورں کی یہ فکر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور بس۔
اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ مسلمانوں کے حوالے سے مغربی میڈیا کی اکثر خبریں جھوٹ کا پلندہ ہوتی ہیں۔ فرضی باتوں کے سہارے اسلام اور مسلمانو ں کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔بوکو حرام کے حوالے سے بیان کردہ باتیں بھی خلاف حقیقت لگ رہی ہیں اور اس طرح کی خبروں کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے آپس میں ایک دوسرے کے تئیں نفرت پید اکرنا ہے ۔بغض وعداوت کی چنگاری بھڑکانی ہے ۔
مغرب اور اقوام متحدہ کو اگر انسانیت سے اتنی ہی محبت ہے تو مصر ،شام ،فلسطین بنگلہ دیش پاکستان ،ہندوستان او ردیگر ممالک میں مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش کیوں ہے؟معصوم بچوں کی موت کو خاموش تماشائی بن کرکیوں دیکھ رہے ہیں؟ ان کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کررہے ہیں؟میڈیا ان امور پر خاموش کیوں ہے؟بوکو حرام کے خلاف سخت رد عمل اس لئے ہے کہ اس منشور میں مغرب سے نفرت ہے۔انگریزی تعلیم سے مسلمانوں کو دور رکھنا ان کا منصوبہ ہے ۔ وہ اپنی نسل اور قوم کو مغربی بے راہ روی سے دور رکھنا چاہتے ہیں ۔یہ پہلو انتہائی افسوسناک ہے کہ اقوام متحدہ کی ان معمولی واقعات پہ نگاہ رہتی ہے ۔میڈیا انہیں پھیلانے میں بہت سخاوت سے کام لیتاہے، لیکن حقیقی مسائل سے پہلوتہی اختیارکی جاتی ہے۔
اس تناظر میں میری ذاتی رائے یہی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے کہنے اور مغربی میڈیا کے کسی کو دہشت گرد ثابت کرنے سے کوئی دہشت گر دنہیں ہوسکتا ہے۔اور نہ ہی اس کو حقیقت پرمحمول کیا جاسکتا ہے۔واللہ اعلم بالصواب ۔
اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.